ہجر کی زندانیوں کا دم َ لبوں تک آگیا
سلسلہ اظہار کا Ú©Ù† مرØ+لوں تک آگیا

کوئی کیا دیتا مجھے اچھے برے کی آگہی
میں خود اپنے جہل کی باریکیوں تک آگیا

جانے کس ترغیب نے گمراہ سورج کو کیا
جانے کس کی زلف کا سایہ شبوں تک آگیا

Ú©Ù„ اڑا پھرتے تھے اسکے ساتھ جگنو Ú©ÛŒ طرØ+
اس تعلق کا نتیجہ رت جگوں تک آگیا

ابتدا کی اس نے پہلے اپنے غم کے نام سے
دھیرے دھیرے پھر میرے دل کی تہوں تک آگیا

چپُ رہیں آنکھیں تودل میں رتُ نےچٹکی سی بھری
ہاتھ موسم کا بہک کر دھڑکنوں تک آگیا

کاش ساجد ہم مزاج باد و باراں جانتے
دیکھتے ہی دیکھتے پانی سروں تک آگیا

اعتبار ساجد